تَغَدَّ کی صرفی تحقیق و تعلیل
عنوان:
تَغَدَّ کی صرفی تحقیق و تعلیل
تحریر:
محمد صلاح الدین عطاری مدنی
جب کہیں عبارت میں لفظ
تَغَدَّ
کا گزر ہوتا ہے تو اکثر طلبہ اس کی صرفی تحقیق اس کی تعلیل اور اس کی ترکیب نحوی کے تعلق سے تشویش کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں اسی وجہ سے آج ہم
تَغَدَّ
کی صرفی تحقیق اور تعلیل کی مکمل وضاحت کر رہے ہیں۔
تَغَدَّ کی مکمل صرفی تحقیق:
یہ سہ اقسام میں فعل ہے۔( فعل مضارع مثبت معروف صیغہ واحد مذکر حاضر)
شش اقسام میں ثلاثی مزید فیہ ہے،
ہفت اقسام میں ناقص واوی ہے، اور
باب تفعل سے ہے،
مادہ ہے غ، د، و،
اور یہ معلل صیغہ ہے۔ نیز لفظ
تَغَدَّ جواب امر واقع ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔
تَغَدَّ کی تعلیل:
تَغَدَّ
اصل میں
تَتَغَدَّيُ
تھا
اور ناقص کا قاعدہ ہے کہ واؤ یا یا متحرک ماقبل مفتوح کو الف سے بدل دیا جاتا ہے
لھذا یا کو الف سے بدل دیا تو
تَتَغَدَّیٰ
ہوگیا بغرض تخفیف ایک تا کو گرا دیا تو
تَغَدَّیٰ
ہوگیا یہ لفظ کتاب میں فعل امر
تَعَالَ
کا جواب واقع ہے اور جواب امر مجزوم ہوتا لھذا
تَغَدَّ
ہوگیا کیوں کہ یہ فعل مضارع ناقص الفی ہے اور فعل مضارع ناقص الفی کی حالت جزمی حذف آخر سے آتی ہے
▫️ اسے بھی پڑھیں: ایضا کی صرفی تحقیق اور اس کا استعمال
مزید کچھ اہم معلومات:
باب تفعل، تفاعل اور تفعلل میں اگر دو تا جمع ہو جائیں تو مضارع معروف میں ایک تا کو گرانا جائز ہے اور یہ تخفیف کی غرض سے ہوتا ہے کیوں کہ دو ہم جنس متحرک حرف کا اجتماع عرب والوں کیلیے ثقل کا باعث ہے اور یہ سب پر عیاں ہے کہ ثقل تخفیف کا متقاضی ہے۔
یہاں تک تو اس قاعدہ کا بیان ہوا اور اس قاعدہ کی علت ہوئی۔
اب اس بابت کوفی و بصری حضرات کا اختلاف ہے کہ ایسی صورت میں تاۓ اول جوکہ علامت مضارع ہے وہ حذف ہوگی یا وہ تا حذف ہوگی جو باب کی علامت ہے
کوفی حضرات پہلی تا یعنی تاۓ مضارع کو حذف کرنا اولی قرار دیتے ہیں
بصری حضرات دوسری تا یعنی جو باب کی علامت ہے اس کو حذف کرنا اولی قرار دیتے ہیں
دونوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں جن دلائل کو ابو البرکات الانباری ن ے اپنی کتاب
كتاب الانصاف فی مسائل الخلاف بین النحویین الكوفیین و البصریین
میں مفصل بیان کر دیا ہے ہاں بصری حضرات کے دلائل قوی ہیں۔
نوٹ:
مجزوم بجواب امر کا عامل کون اس میں تین مذہب ہے شائقین کتب نحو کا مطالعہ کریں اور استفادہ کریں۔
▫️ اسے بھی پڑھیں : مال کی صرفی تحقیق و تعلیل
[كتاب الانصاف، مسألة:المحذوف من التاءين المبدوء بهما المضارع، ج2، ص534، المكتبة الشاملة]