قِصَّةُ تُرَابِ القَبْرِ
وَقالَ الشَّيْخُ سَعْدِيٌّ: لَقَدْ لَقِيتُ تاجِرًا في جَزيرَةِ كِيشٍ.
وَكانَ لَهُ أَرْبَعُونَ خادِمًا، وَمِئَةٌ وَخَمْسُونَ جَمَلًا مَحْمُولًا عَلَيْها بِضَاعَةٌ.
فَدَعانِي لَيْلَةً إلى مَنْزِلِهِ، وَلَمْ يَدَعْنِي أَن أَنامَ، وَلا نَامَ هُوَ أَيْضًا،
فَكَانَ يَقولُ: إِنَّ لِي بِضاعَةً في تُرْكِسْتانَ، وَسِلْعَةً في الْهِنْدِ.
ثُمَّ يَقولُ: لَوْ نَذْهَبْ إلى الإِسْكَنْدَرِيَّةِ، فَإِنَّ جَوَّها جَمِيلٌ.
ثُمَّ يَعُودُ وَيَقولُ: وَكَيْفَ نَذْهَبُ؟!
ثُمَّ قالَ: إِنِّي أُرِيدُ سَفَرًا، فَإِنْ تَمَّ ذَلِكَ، سَأَجْلِسُ في زَاوِيَةٍ، وَأَعِيشُ بِالقَنَاعَةِ.
فَسَأَلْتُهُ: وَما هُوَ هذَا السَّفَرُ؟
فَقالَ: سَأَأْخُذُ الْكِبْرِيتَ مِنْ فَارِسَ إِلَى الصِّينِ، فَقَدْ سَمِعْتُ أَنَّهُ غَالٍ هُنَاكَ،
ثُمَّ أَشْتَرِي أَوانِيَ مِنَ الصِّينِ، وَأَبِيعُها في الرُّومِ،
ثُمَّ أَأْخُذُ أَقْمِشَةَ الرُّومِ إِلَى الْهِنْدِ،
ثُمَّ أَنْقُلُ الْفُولَاذَ الْهِنْدِيَّ إِلَى حَابٍ،
وَفِي الْمُقَابِلِ أَشْتَرِي الْمِرْآةَ، وَأَذْهَبُ بِها إِلَى الْيَمَنِ،
ثُمَّ أَحْمِلُ الْمَلَابِسَ الْيَمَانِيَّةَ إِلَى وَطَنِي (فَارِسَ)، وَأَفْتَحُ دُكّانًا، وَأَتْرُكُ السَّفَرَ.
وَكانَ يُكَلِّمُنِي بِهَذِهِ الْخُطَطِ طُولَ اللَّيْلِ، حَتَّى تَعِبَ لِسَانُهُ.
ثُمَّ قالَ لِي: يَا شَيْخُ، قَدْ رَأَيْتَ الدُّنْيَا، فَاحْكِ لَنَا مِمَّا رَأَيْتَ وَسَمِعْتَ.
فَقُلْتُ:
إِنَّما يَملَأُ بَطْنَ الإِنْسانِ تُرابُ القَبْرِ.
رِسَالَةُ الحِكَايَةِ:
إِنَّ في هذِهِ الحِكَايَةِ لِلشَّيْخِ سَعْدِيٍّ تَنْبِيهًا عَلى حِرْصِ الإِنْسانِ وَطَمَعِهِ،
وَمَا يَجْرِي وَرَاءَهُ مِنْ رَغَبَاتٍ دُنْيَوِيَّةٍ وَخُطَطٍ خَيَالِيَّةٍ.
فَبِسَمَاعِ كَلامِ التَّاجِرِ، نُدْرِكُ كَيْفَ يَضِيعُ الإِنْسانُ وَقْتَهُ وَرَاحَتَهُ فِي التَّفْكِيرِ فِي أَرْبَاحِ الْمُسْتَقْبَلِ وَالأَمَاكِنِ الْبَعِيدَةِ،
حَتَّى يَنْسَى حَالَهُ الحَاضِرَ، وَيَفْقِدَ النَّوْمَ وَالسُّكُونَ.
وَإِنَّ كَلِمَةَ الشَّيْخِ سَعْدِيٍّ الأَخِيرَةَ:
إِنَّما يَملَأُ بَطْنَ الإِنْسانِ تُرابُ القَبْرِ
تَدُلُّ عَلى أَنَّ رَغَبَاتِ الإِنْسانِ لا نِهَايَةَ لَها، وَأَنَّهُ لا يَقْنَعُ أَبَدًا.
فَإِنَّ المَوْتَ وَحْدَهُ هُوَ الَّذِي يُنْهِـي سَعْيَ الإِنْسانِ وَحِرْصَهُ وَطَمَعَهُ.
مذکورہ عربی مضمون(قبر کی مٹی) کا اردو ترجمہ:
شیخ سعدی کہتے ہیں جزیرہ کیش میں مجھے ایک سوداگر سے ملنے کا اتفاق ہوا ۔ اس کے چالیس تو کارندے تھے اور ڈیڑھ سو اونٹوں پر مال تجارت لدا تھا ۔
وہ ایک رات مجھے اپنی آرام گاہ میں لے گیا مگر خیالی پلاؤ پکانے میں نہ تو رات بھر مجھے سونے دیا اور نہ خود سویا۔ کبھی کہتا کہ میرا افلاں مال ترکستان میں پڑا ہے اور فلاں شے ہندوستان میں رکھی ہے۔
کبھی سناتا کہ اسکندریہ چلیں وہاں کی آب و ہوا بڑی خوشگوار ہے ۔ پھر خود ہی کہہ دیتا جائیں کیسے؟ کبھی کہتا کہ جس سفر کا میں نے ارادہ کر رکھا ہے اگر وہ پورا ہو جائے تو پھر عمر بھر ایک جگہ گوشہ عافیت میں بیٹھ کر قناعت سے بسر کروں۔
میں نے پوچھا بتائیے تو وہ کون سا سفر ہے؟ کہنے لگا فارس سے چین میں گندھک لے جاؤں گا۔ سنا ہے وہاں اس کی بڑی قدر و قیمت ہے اور چین سے پیالیاں خرید کر روم بیچوں گا اور وہاں سے ان کے عوض رومی کپڑا ہندوستان لے جاؤں گا۔
پھر ہندوستان سے ہندوستانی فولاد حاب میں پہنچاؤں گا اور اس کے بدلے آئینے خرید کر یمن لے جاؤں گا اور پھر یمنی چادریں اپنے وطن ( فارس ) میں لا کرمزے سے ایک دکان کھول کر بیٹھ جاؤں گا اور سفر کو خیر باد کہہ دوں گا۔
ذرا اس جنون کو ملاحظہ فرمائیے۔ بس اسی طرح بولتے بولتے اپنی رات گزار دی اور اتنی باتیں کی کہ بولنے کی طاقت نہ رہی۔ آخر اس نے میری طرف توجہ کی اور کہا شیخ صاحب آپ نے بھی دنیا دیکھی ہے اپنے دیکھے سنے سے ہمیں بھی تو مشرف فرمائیے۔ میں نے کہا قبر کی مٹی ہی انسان کا پیٹ بھر سکتی ہے۔
پیغامِ حکایت:
شیخ سعدی کی اس حکایت میں انسانی حرص و طمع، دنیاوی خواہشات اور خیالی منصوبوں کے پیچھے دوڑنے کے انجام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سوداگر کی باتیں سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کس طرح مستقبل کے لالچ اور دور دراز کے منافع کے خواب دیکھ کر اپنے حال کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ وہ رات بھر ایسی تجارتوں کے منصوبے بناتا رہا جو ابھی صرف اس کے ذہن میں تھیں، اور اس دوران نیند اور سکون دونوں سے محروم رہا۔
شیخ سعدی کا آخری جملہ “قبر کی مٹی ہی انسان کا پیٹ بھر سکتی ہے” اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کی خواہشات لاانتہا ہیں، اور وہ کبھی قناعت نہیں کرتا۔ صرف موت ہی ہے جو انسان کی بھاگ دوڑ اور حرص کو ختم کر سکتی ہے۔
Tags:
عربى کہانیاں